SIZE
1 / 5

" یہ کھانا کہاں سے آیا ہے؟" کچن میں داخل ہوتے ہی بریانی کی اشتہا انگیز خوشبو نے فورا" ہی زنیرہ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔

" وہ جی سامنے والی آنٹی ہیں نا' کیا نام ہے ان کا؟" برتن دھوتی ثریا نے اپنے ہاتھ روک کر ایک لمحے کو سوچا۔

" گلنار آنٹی' ان کا ملازم دے کر گیا ہے۔"

" واٹ؟" ثریا نے بات سنتے ہی زنیرہ کو جیسے کرنٹ لگا۔

" تم نے اس عورت کے گھر سے آیا کھانا میرے کچن میں کیسے رکھا' جبکہ تم اچھی طرح جانتی ہو کے میں اس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی۔ اٹھاؤ اس کھانے کو اور باہر پھینکو۔" مالکن کی اواز سنتے ہی ثریا نے گھبرا کر پیچھے دیکھا۔

" سارا محلہ جانتا ہے کہ وہ کس قسم کی عورت ہے۔ سارا دن غیر مردوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اس کے گھر میں ' میاں کا اتا پتا نہیں' اوپر سے حلیہ دیکھا ہے ان ماں بیٹیوں کا' ان کے گھر سے ایا حرام رزق تم میری اور میرے بچوں کی رگوں میں اتارنا چاہتی ہو۔"

" مگر باجی جی! آج تو ان کے گھر میلاد تھا' اور یہ کھانا تو میلاد کا ہے تو یہ حرام کیسے ہو گیا؟" کم عقل ثریا' زنیرہ کی بات سمجھ نہ سکی اس لیے معصومیت سے بولی۔

" میں نے تم سے جو کہا ہے وہ کرو۔ حلال اور حرام کا فرق نہ سمجھاؤ' اور اٹھاؤ یہ کھانا اور باہر کوڑے دان میں ڈال کر آؤ۔"

" اچھا جی۔" ثریا کا جواب سنتے ہی زنیرہ کچن سے باہر نکل گئی۔ اس ک جاتے ہی ثریا نے جلدی سے چاولوں کی ڈش اٹھا کر شاپر میں انڈیلی۔ اور شاپر اپنے سامان میں چھپا دیا تاکہ گھر واپسی میں وہ یہ کھانا اپنے بچوں کے لیے لے جا سکے' کیونکہ وہ ایک غریب عورت تھیجس کی سارے دن کی محنت کا مقصد محض اپنے بچوں کا پیٹ پالنا تھا جو وہ حلال حرام کے چکر میں الجھے بنا کر رہی تھی۔